PCI logo

Pakistan-China Institute

Realizing the Future Collectively

'پاک چین سفارتی تعلقات کے 70 سال' ویبینار: "چین نے سی پیک میں براہ راست 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ،نونگ رونگ،چینی سفیر برائے پاکستان" ؛چین پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین حصہ ہے،ایمبیسڈر منیر اکرم؛ "پاکستان نے 75 سے 80 فیصد دفاعی سازوسامان چین سے خریدے"، جنرل(ر) احسان الحق ،؛"کووڈ- 19 ویکسین کے عطیات کی فراہمی پر چین کا شکریہ"،مشاہد حسین سید


Source : PCI Date : 01-04-2021   

Mushahid Hussain elected chairman of CPEC parliamentary committee

پاک چین سفارتی تعلقات کی 70 ویں سالگرہ کی مناسبت سے پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام " شاہراہِ ریشم کے دیرینہ دوست" کے موضوع پر ایک ویبینار کا انعقاد کیا گیاجس میں پاکستان اور چین کے اعلٰی سطحی مقررین شامل تھے۔ اس ویبینار کے اہم مقررین میں سابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی آف پاکستان جنرل (ر) احسان الحق ، سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی اور پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید ، ،چینی سفیر برائے پاکستان نونگ رونگ ، اقوام متحدہ کے سابق انڈر سیکرٹری جنرل اور چین- پاکستان فرینڈشپ ایسوسی ایشن کے صدر ایمبیسڈر شا زوکانگ ، سابق پاکستانی سفیر برائےچین مسعود خالد ، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندہ ایمبیسڈرمنیر اکرم ، سابق خارجہ سکریٹری پاکستان محترمہ تہمینہ جنجوعہ ، اور یوتھ ڈیلیگیشن کی ممبرصالحہ آغا شامل تھیں۔اس آن لائن تقریب کی نظامت کے فرائض پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفی حیدر سید نے انجام دیے۔ا س موقع پرچینی سفیر برائے پاکستان نونگ رونگ نے گذشتہ دہائیوں کے دوران چین کی مستقل حمایت پر پاکستان کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دو طرفہ تعلقات کو باہمی تعاون اور اعلٰی سطی دوروں کے سبب مزید تقویت ملی ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ چین نے سی پیک کے تحت اس کے آغاز سے اب تک 25.4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس سے پاکستانیوں کے لئے 75000 ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں ۔مزید برآں انہوں نے مزید کہا کووڈ-19 کی وبا کے دوران سی پیک منصوبوں میں کام کرنے والے کسی ایک بھی پاکستانی ملازم کو ملازمت سے فارغ نہیں کیا گیا۔ جبکہ پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس نے چینی کووڈ- 19 ویکسین کا عطیہ حاصل کیا ہے ۔علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ دوطرفہ آزاد تجارتی معاہدہ(ایف ٹی اے) تجارتی خسارے کو کم کرنے اور اقتصادی تعاون کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔چینی سفیر نے مزید کہا کہ جوائنٹ کوآرڈنیشن کمیٹی (جے سی سی) جو سی پیک کی ایک اعلٰی سطحی کمیٹی ہے کے آئندہ اجلاس میں سماجی و اقتصادی ترقی ، صنعت اور زراعت کے شعبوں پر خاص توجہ دی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین میں دیہی غربت کے خاتمے سے 100 ملین چینیوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔

اس ویبینار میں تبادلہ خیال کرتے ہوئےسابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی اور سابق ڈی جی ، آئی ایس آئی جنرل (ر) احسان الحق نے "سیکیورٹی تعاون کو پاک چین تعلقات کا اہم ترین شعبہ" قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "75 سے 80فیصدپاکستانی دفاعی سازوسامان چین سے درآمد کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان چین کی فوجی برآمدات کا 35حصہ رکھتاہے۔ “انہوں نے مزید کہا کہ چین ایک قابل اعتبار اور با اعتماد پارٹنر ہے اور پاک چین تعلقات اب جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس، سماجی اقتصادی ترقی ، ہیومن ڈویلپمنٹ اور سافٹ پاور کی طرف بڑھ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سابق انڈر سیکرٹری جنرل اور چین پاکستان فرینڈشپ ایسوسی ایشن کے صدر ایمبیسڈر شا ذوکانگ نے کہا کہ چین کے لئے پاکستان خطے کا سب سے اہم ترین ملک ہے اور موجودہ دور میں پاک چین تعلقات کے ثمرات سے دونوں ممالک بہرہ ور ہورہے ہیں انہوں نے مزیدکہا کہ ایک مضبوط پاکستان خطے اور دنیا میں استحکام کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر منیر اکرم نے چین کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین حصہ قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ اس کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان چین کی علاقائی سالمیت کا مضبوط محافظ ہے جبکہ پاک چین پالیسیاں مکمل طور پر جنوبی ایشیاء ، بحر ہند ، وسطی ایشیاء ، ایشیا ،بحر الکاہل کے خطوں کی فلاح و بہبود سے منسلک ہیں۔
چین میں خدمات سر انجام دینے والے پاکستان کے سابق سفیر مسعود خالد نے ویبینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چین کا عروج ایک حقیقت ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ 50 سال پہلے ثقافتی انقلاب کے دوران چین نے اپنی مشکلات کے باوجود پاکستان میں بھاری صنعتی بیس کی تعمیر کے لئے 300 ملین ڈالر کی امداد دی جس کی مالیت موجودہ دور میں اربوں ہے۔
سابق سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے اس موقع پر 2019 میں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین کے موقع پر چینی صدر ژی جن پنگ کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ عالمی صورتحال میں جیسی بھی تبدیلیاں رونما ہوں مگر چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
اس ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ دو طرفہ عوام کے درمیان مراسم پاک چین تعلقات میں نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے 70 کی دہائی کے اوائل میں کالج کے ایک نوجوان کی حیثیت سے چین کے اپنے پہلے دورے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نہایت خوش قسمت ہوں کہ میں نے چین کے اپنے 100 دوروں کے ذریعے گذشتہ 5 دہائیوں پر محیط چین کے عروج کا مشاہدہ کیا اور ہر باراس میں مثبت نمایاں تبدیلیاں محسوس کیں۔ انہوں نے سی پیک کوکامیابی کا نشاں قرار دیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے دیرینہ بجلی کی قلت پر قابو پانے اورسڑکوں اور موٹر ویز کے ذریعے زیادہ سے زیادہ بین الصوبائی روابط میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ گوادر بندرگاہ کی تعمیر و ترقی میں مدد ملی ہے جس کے سبب اب گوادر بندرگاہ افغانستان اور وسطی ایشیاء کے ساتھ ساتھ علاقائی رابطہ کاری کا اہم مرکز بن کر ابھرا ہے۔ جبکہ سی پیک کے سبب ہی تھر جیسے کم ترقی یافتہ علاقوں میں خواتین کو بااختیار بنایا گیا ہے۔ انہوں نے مشکل اور فوری ضروری وقت میں کووڈ- 19 ویکسین کی 15 لاکھ خوراکوں کےتحفے کی فراہمی پر چین کا خصوصی شکریہ ادا کیا ۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے مزید کہا کہ 2021 ء ڈاکٹر ہنری کسنجر کے خفیہ دورہ چین کے اہتمام میں پاکستان کے تاریخی کردار کی 50 ویں سالگرہ ہے جس کے نتیجے میں چین امریکہ تعلقات معمول پر آئے جو اس دور کی سب سے بڑی اور اہم"سفارتی پیش رفت " تھی۔ انہوں نے سیکرٹری خارجہ سلطان محمد خان اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر آغا ہلالی جیسے پاکستان کے دفتر خارجہ کے پیشہ ور افراد کے کردار کی تعریف کی جنھوں نے اس خفیہ مشن میں صدر جنرل یحییٰ خان کی مدد کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ 20 مارچ کو چینی حکومت کے زیر اہتمام منعقدہ ایک ویبینارکے دوران انہوں نے اور ڈاکٹر کسنجر نے شرکت کی تھی ۔جس میں ڈاکٹر کسنجرنے پاکستان کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی تعریف کی ۔
اس ویبینار میں پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹرمصطفیٰ سید نے چین کو "ترقی پذیر دنیا کا فاتح" قرار دیا اور انہوں نے چین کی غربت کے خاتمے کی حکمت عملی کی بھی شاندار الفاظ میں سراہا جو ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک بہترین نمونہ عمل ہے۔یہ ویبنیار 2 گھنٹے 30 منٹ تک جاری رہی۔ جس میں 45 منٹ سوالات و جوابات کا حصہ شامل تھا۔اس ویبینار میں سابقہ پالیسی سازوں ، طلباء ،اسکالرز ،تھنک ٹینکس کے نمائندوں سمیت تقریباََ 80 ناظرین نے شرکت کی۔