PCI logo

Pakistan-China Institute

Realizing the Future Collectively

ویبینار مقررین نے او آئی سی میں وانگ یی کی شرکت کا خیرمقدم کیا، پاکستان-سعودی عرب-چین 'اسٹرٹیجک ٹرائنگل' کا مسلم دنیا میں نئے ابھرتے ہوئے آرڈرمیں کلیدی کردار ہے،سینیٹر مشاہد حسین سید


Source : PCI Date : 20-01-2022   

Mushahid Hussain elected chairman of CPEC parliamentary committee

اسلام آباد، 22 مارچ، 2022: اسلام آباد میں او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس میں چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کی خصوصی شرکت اور تقریر نے ایک تاریخ رقم کی وہیں اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) نے ایک خصوصی ویبنار کا انعقاد کیا جس میں مقررین نے چین کی او آئی سی کانفرنس میں شرکت کا خیرمقدم کیا گیا اور اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ چینی نظام غربت کے خاتمے سے لے کر گڈ گورننس تک کس طرح اپنے عوام کی توقعات پر پورا اترا ہے ۔ 'فرینڈز آف سلک روڈ' کے بینر تلے "ہول پراسیس پیپلز ڈیموکریسی : انڈر سٹینڈنگ دی چائینز سسٹم" کے موضوع پر منعقدہ ویبینار سینیٹ کی دفاعی کمیٹی اورپاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید کے افتتاحی کلمات کے ساتھ شروع ہوا جس میں انہوں نے تاریخی طور پر پہلی بار او آئی سی کانفرنس میں چین کی شرکت کا خیرمقدم کیا اور مسلم دنیا میں چین کے داخلے کو امریکہ کااخراج قرار دیا اور اس سے جنوب مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے امریکی اثر و اسوخ میں کمی آنے کی بھی نشاندہی کی ۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے اس موقع پر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قریبی ہم آہنگی کو خوش آئیندقرار دیا جس کے سبب او آئی سی میں چین کو مدعو کیا گیا جو کہ چین کے دیرینہ تعلقات اورمسلم دنیا کی حمایت کا اعتراف بھی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سعودی عرب قریبی تعاون کے سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں اور پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ رشتہ جس نے 1974 میں لاہور پاکستان میں پہلی کامیاب او آئی سی سمٹ کو یقینی بنایا تھا۔
سینیٹر مشاہد حسین نے بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست کے تناظر میں کہا کہ چین مسلم دنیا میں ایک کلیدی پلیئرکے طور پر ابھر رہا ہے اور پاکستان اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اس کردار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کی ملکی اور غیر ملکی پالیسیوں میں تزویراتی تبدیلی، خاص طور پر سعودی معاشرے، معیشت، ثقافت میں کھلے پن اور مذہبی انتہا پسندی کو روکنے اور خواتین کے حقوق کے فروغ کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ ایران اور ترکی کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری کی تعریف کی۔ سینیٹر مشاہد حسین نے پاکستان، چین اور سعودی عرب کے درمیان ایک ’’اسٹرٹیجک ٹرائنگل‘‘ کی نشاندہی کی جو مسلم دنیا میں اتحاد، اقتصادی ترقی اور روابط کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں تزویراتی تبدیلی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی روشن خیال قیادت کی وجہ سے ہوئی ہے اور اب سعودی عرب اور چین کے درمیان امریکی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی رینمبی میں تیل فروخت کرنے پر بات چیت بھی ہو رہی ہے۔ جبکہ 2022 کے سمر سیزن میں صدر شی جن پنگ کا سعودی عرب کا دورہ کرنے کا امکان ہے اور سعودی ولی عہد کا پاکستان کا دورہ کرنے کا امکان ہے۔
چین میں جمہوریت کے حوالے سے سینیٹر مشاہد حسین سید نے دو سروے رپورٹس کا حوالہ دیا جو امریکہ میں کرائے گئے تھے، ایک ہارورڈ یونیورسٹی نے جولائی 2020 میں اور دوسرا ایک امریکی عالمی پی آر کنسلٹنسی ایڈل مین ٹرسٹ بیرومیٹر کی طرف سے جنوری 2022 میں کیا گیا تھا۔ جس میں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 'چینی حکومت پچھلی 2 دہائیوں کے دوران کسی بھی دورکے مقابلے میں زیادہ مقبول تھی جو کہ چینی عوام میں ان کی حکومت کے بارے میں 80 فیصد سے زیادہ اطمینان کی سطح کو ظاہر کرتی ہے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ عوام کے اس اعلیٰ اطمینان کی وجہ اچھی حکمرانی اور بہتر معیار زندگی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی نظام کی ساکھ کا ایک اہم جزو عوامی توقعات پر پورا اترنے کی صلاحیت ہے جو چینی قیادت میں موجود ہے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے چین میں 6 سال خدمات سرانجام دینے والے سابق سفیر مسعود خالد نے کہا کہ چین نے عالمی بہترین طرز عمل اپناتے ہوئے قانون پر مبنی ریاستی طرز حکمرانی کا اپنا ماڈل تیار کیا ہے جس میں جمہوریت خوشحالی اور مشاورتی عمل پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر شی جن پنگ بدستور مقبول ہیں کیونکہ چینی عوام کی زندگیوں میں روزانہ کی بنیاد پر بہتری لائی جا رہی ہے۔ انہوں نے چین اور امریکہ کے درمیان تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔
صدر شی جن پنگ اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا پر کئی کتابوں کے مصنف سلطان حالی نے عوام پر مبنی ترقی کے ذریعے چین کی غیر معمولی تبدیلی کا حوالہ دیا جس نے لاکھوں چینیوں کی زندگیوں کو تبدیل کر دیا ہے، خاص طور پر گزشتہ تین دہائیوں میں 800 ملین چینی لوگوں کو غربت سے نکالا گیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ نظام چین کی بہت بڑی کامیابی ہے ۔
اس ویبینار سے خطاب کرتے ہوئےکیتھ بینیٹ جو لندن میں 'فرینڈز آف سوشلسٹ چائنا' کے شریک ایڈیٹر ہیں نے کہا کہ چینی نظام ایک جامع، غیر مخالف جمہوری اخلاقیات کے ساتھ، ہزار سالہ چینی دانشمندی، ہم آہنگی اور اتفاق رائے پر مبنی ہے۔ چین میں کل وقتی سیاست دان نہیں ہیں کیونکہ خاکروب اور بس ڈرائیور بھی پارلیمنٹ کے رکن بن سکتے ہیں۔
ایک پاکستانی صحافی اور محقق محترمہ زون احمد خان جو اب بیجنگ میں سنٹر فار چائنا اینڈ گلوبلائزیشن میں ریسرچ فیلو ہیں نے کہا کہ خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانا اور ان کی سماجی آزادی چین کی کامیابی کی کہانی کا ایک اہم جزو ہے جس نے چین کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ انہوں نے سی پی سی کی طاقت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سی پی سی چین میں عام لوگوں کو ہیرو کا درجہ دیتی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے سماجی سائنسدان اور پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کے صدر رضا نعیم نے چینی سیاسی نظام کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالی جس میں چین قیادت عوام کو جواب دہ ہونا ہے خاص طور پر کورونا وائرس وبائی مرض کا تجربہ جس میں چین نے سب سے پہلے لوگوں کی فلاح و بہبود پر خاص توجہ دی۔ انہوں نے چینی عوام کی لچک کو سراہتے ہوئے کہا کہ 21ویں صدی اقتصادی اور سیاسی شعبوں میں چین کے عروج سے تشکیل پائے گی۔