PCI logo

Pakistan-China Institute

Realizing the Future Collectively

چینی گورننس پر ویبنار: چین مشکل کی گھڑی میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے،چینی سفیر نونگ رونگ،سینیٹر مشاہد حسین نے پیلوسی کےممکنہ دورہ تائیوان کو ’غیر ضروری اشتعال انگیزی‘ قرار دیا، اعزاز چوہدری نے چینی ترقیاتی ماڈل کو شاندار الفاظ میں سراہا۔


Source : PCI Date : 04-08-2022   

Mushahid Hussain elected chairman of CPEC parliamentary committee

اسلام آباد (2 اگست2022): پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ اسلام آباد اور اکیڈمی آف کنٹیمپریری چائنا اینڈ ورلڈ سٹڈیز نے پاکستان اور چین کے مقررین پر مشتمل 'عالمی ترقی اور حکمرانی' پر 'پاکستان اور چین کے درمیان حکمرانی کے تجربات کے تبادلے' کے موضوع پر ایک ڈائلاگ کا اہتمام کیا۔ اس تقریب کے افتتاحی کلمات پاکستان میں تعینات چین کے سفیر نونگ رونگ، سینیٹ آف پاکستان کی دفاعی کمیٹی کے پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید اور چائنا انٹرنیشنل کمیونیکیشن گروپ (سی آئی سی جی) کے نائب صدر اور چیف ایڈیٹر گاؤ اینمنگ نے ادا کیے۔ اس ڈائلاگ کی نظامت کے فرائض پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید اور اکیڈمی آف کنٹیمپریری چائنا اینڈ ورلڈ سٹڈیز کے نائب صدر لِن کن نے ادا کیے۔
پاکستان میں تعینات چین کے سفیر نونگ رونگ نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ چین زمینی حقائق کے مطابق ترقیاتی ماڈل کو آگے بڑھانے میں پاکستان کی حمایت کو جاری رکھنےکا خواہاں ہے کیونکہ دونوں ممالک سدا بہاردوستی کے رشنے میں بندھے ہوئے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سی پیک کے ذریعے چین حکمرانی کے شعبے میں اپنے تبادلے کو بڑھانے کا بھی خواہاں ہے، جس میں غربت کی سطح کو کم کرنا اور لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ انہوں نے چین میں کم مدت میں حیرت انگیز مثبت تبدیلی لانے میں سی پی سی کے کردار کو شاندار الفاظ میں سراہا۔ انہوں نے کہا کہ 20 ویں نیشنل پیپلز کانگریس مستقبل کے لیے منصوبے کا تعین کرے گا اور نئے مقاصد طے ہونگےاور یہ تمام لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے مل کر کام کرنے کے وژن کے تحت حاصل کیے جائیں گے۔ مزید برآں ،انہوں نے کہا کہ چین اور پاکستان اسٹریٹجک اتحادی ہیں جو ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔
سینیٹ آف پاکستان کی دفاعی کمیٹی اور پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے اپنی تقریر کے آغاز میں چین کو پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے قیام کی 95ویں سالگرہ کے موقع پر خصوصی مبارکباد پیش کی جو کہ خصوصی طور پر منائی گئی۔ انہوں نے جی ایچ کیو کے جذبہ خیر سگالی خصوصاََ پاک فوج اور پی ایل اے کے درمیان قریبی تعاون کی تعریف کی جس میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ نے دونوں افواج کو بھائی بھائی قرار دیا ہے۔
نینسی پیلوسی کے ایشیا کےمتوقع اور تائیوان کےممکنہ دورےپر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے اسے ایک سنگین، غیر مناسب اور غیر ضروری اشتعال انگیزی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ شنگھائی کمیونیک میں امریکہ اور عوامی جمہوریہ چین کی طرف سے متفقہ ون چائنا پالیسی اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج بنیادی اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ اس سے ایشیا غیر مستحکم ہو گا اور ایک نئی قسم کا تصادم جنم لے گا جس کا خطہ اس وقت متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مزیدکہا کہ پاکستان ون چائنا پالیسی کی حمایت پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ چینی طرز حکمرانی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی پی سی نے چین کو استعمار کی زنجیروں سے نجات دلائی ہے اور چین کو عالمی امور میں اثرو اسوخ رکھنے والے ایک اہم طاقت کے طور پر منظر عام پر لایا ہے اور اس نے 800 ملین لوگوں کو غربت سے نکال کر چین کو اعتدال پسند خوشحالی کے معاشرے میں تبدیل کیا۔ انہوں نے اس کامیابی کا سہرا صدر شی جن پنگ کی دور اندیش قیادت اور 1970 کی دہائی کے آخر میں ڈینگ ژیاؤ پنگ کی طرف سے پیش کی گئی اصلاحات اور کھلی پالیسیوں کو دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ چین نے زندگی کے ہر شعبے میں شی جن پنگ کی قیادت میں حکمرانی کے نئے اصولوں کا تجربہ کیا۔ انہوں نے صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو پر بھی تبادلہ خیال کیا جسے انہوں نے اکیسویں صدی کا سب سے اہم ترقیاتی اور سفارتی اقدام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک بی آر آئی کا فلیگ شپ پراجیکٹ قابلِ تعریف طریقے سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے کیونکہ اس نے ملک کے بنیادی ڈھانچے کو جدید بنایا ہے اور اس کے شہریوں کی سماجی اقتصادی صورتحال کو بہتر کیا ہے۔ آخر میں انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے دو مطالعوں کا حوالہ دیا
جس میں سےپہلا مطالعہ، جس کا عنوان 'سی سی پی لچک کو سمجھنا: وقت کے ذریعے چینی عوامی رائے کا سروے کرنا'تھا ایش سینٹر فار ڈیموکریٹک گورننس اینڈ انوویشن نے شائع کیا تھا۔ اس مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں رائے عامہ کے پیٹرن کے مقابلے میں چین میں مرکزی حکومت کے بارے میں بہت زیادہ اطمینان پایا جاتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے گراہم ایلیسن کی دوسری تحقیق کا عنوان 'دی گریٹ ٹیک ریوایوری : چائنا بمقابلہ امریکہ' تھا۔ اس مطالعہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ چین نے 2020 میں 250 ملین کمپیوٹرز، 25 ملین آٹوموبائلز اور 1.5 بلین اسمارٹ فونز تیار کرتے ہوئے دنیا کے اعلیٰ ترین ہائی ٹیک مینوفیکچرر کے طور پر امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مزید یہ کہ اس میں کہا گیا ہے کہ مینوفیکچرنگ پاور ہاؤس بننے کے ساتھ چین تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور 21ویں صدی کی بنیادی ٹیکنالوجیز جن میں مصنوعی ذہانت (اے آئی)، 5، کوانٹم انفارمیشن سائنس (کیو آئی ایس)، سیمی کنڈکٹرز، بائیو ٹیکنالوجی اور سبز توانائی شامل ہیں میں چین اہم ترین حریف کے طور پرابھرا ہے۔
چائنا انٹرنیشنل کمیونیکیشن گروپ کے نائب صدر اور چیف ایڈیٹر گاؤ اینمنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت اعلیٰ معیاری تعاون کو مستحکم کرنے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر کو فعال طور پر فروغ دینے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی ترقی رابطے اور کھلے تعاون سے الگ نہیں ہے۔ یہ"بیلٹ اینڈ روڈ" کی مشترکہ تعمیر ترقی کو آگے بڑھاتی ہے، جیت کے نتائج کی حمایت کرتی ہے جبکہ یہ"بیلٹ اینڈ روڈ" کی مشترکہ تعمیر میں ایک تاریخی منصوبے کے طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر دونوں ممالک کے درمیان جیت کے تعاون کی ایک عملی مثال ہے۔ 2015 میں تعمیر کے آغاز سے لے کر اب تک چین پاکستان اقتصادی راہداری پاکستان میں 25.4 ارب امریکی ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری لے کر آئی ہے جس کے 22 ترجیحی منصوبے مکمل ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں 70,000 سے زائد ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں جس سے لوگوں کے معیارِ زندگی میں بہتری آئی ہے۔.
افتتاحی کلمات کے بعدایک مشترکہ تحقیقی پبلکیشن بعنوان " نئے دور میں چین کی حکمرانی پر پاکستان کا نظریہ (2012-2022): پرسیپشن اینڈ انسپیریشن"ایمبیسڈر اعزاز احمد چوہدری نے پیش کیا۔ اس مقالہ میں اعزاز چوہدری نے کہا کہ چین دیگر ممالک کی نسبت بہت تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں طے کر رہا ہے۔ ماو زے تنگ کی قیادت میں چین نے تین اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کی جن میں یونیورسل ایجوکیشن، افرادی قوت میں خواتین کو متحرک کرنااور افرادی قوت میں لوگوں کو متحرک کرنا شامل ہیں ۔ مزید برآں، انہوں نے کہا کہ انہوں نے چینی حکمرانی کی دو نمایاں خصوصیات کا مشاہدہ کیا جن میں پہلا چین ایک واضح وژن اور مقصد کے ساتھ حکمرانی پر قائم ہے۔ چین اس کے ذریعے 2049 تک ملک کو ایک معتدل خوشحال معاشرہ بنانے کا ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا، ایسا لگتا ہے کہ چینی حکمرانی کا نظام شروع میں ہی مرکزیت پر مبنی ہے۔ درحقیقت، یہ انتہائی غیرمرکزی ہے کیونکہ تمام کاؤنٹیوں اور ٹاؤن شپس میں مقامی کانگریسوں کا انتخاب اوپر سے رہنمائی کے ساتھ جمہوری طریقے سے کیا جاتا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک کو چین کے پرامن عروج سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
اکیڈمی آف کنٹیمپریری چائنا اینڈ ورلڈ سٹڈیز کے صدر یو یون کوان نے کہا کہ رپورٹ میں بہت سے پاکستانی ماہرین کا خیال ہے کہ چین کے نئے دور میں "گڈ گورننس" حاصل کرنے کی دو وجوہات ہیں: ایک صدر شی جن پنگ کی دانشمندانہ قیادت۔ جس کے ملک پر حکومت کرنے کے طرز کو پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سمیت عالمی برادری نے بھی تسلیم کیا ہے اور دوسرا جمہوری مشاورتی طرز حکمرانی عوامی طاقت کی ایک وسیع رینج کو اکٹھا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر چین میں 1 بلین سے زیادہ ووٹروں نے کاؤنٹی اور ٹاؤن شپ کی سطحوں پر ہونے والی عوامی کانگریسوں کے لیے براہ راست 2 ملین سے زیادہ نائبین کا انتخاب کیا جسے دنیا کے سب سے بڑے جمہوری انتخابات کے طور پر جانا جاتا ہے۔
پاک چائنا انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے اس موقع پر کہا کہ اصلاحات اور کھلے پن کا دور ایک اہم موڑ تھا جس نے چین کو دوسری بڑی عالمی معیشت میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے چین کے عروج کی وجہ اس پالیسی کی مستقل مزاجی کو قرار دیا جو یکے بعد دیگرے رہنماؤں نے اپنایا ۔ چین کا مشترکہ مستقبل کی کمیونٹی کی تعمیر کا وژن صدر شی جن پنگ کی عوام پر مبنی پالیسیوں کے نتیجے میں حاصل ہو رہا ہے۔ مستقل مزاجی اور تسلسل کی ضرورت ہمیشہ موجود ہے۔ چین کی حکمرانی کی ان دو خصوصیات کی وجہ سے، وہ ان تمام اہم مسائل کا مقابلہ کرے گا جن کا اسے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پی سی چین کا بنیادی روح اور چین کی خوشحالی کا محرک ہے۔ اسی سبب انہوں نے کہا کہ اسے بین الاقوامی سطح پر ڈس انفارمیشن مہم کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کشور محبوبانی کی کتاب 'کیا چین جیت گیا؟' کا حوالہ بھی دیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ہر سال 120 ملین سے زیادہ چینی سیاح آزادانہ طور پر دوسرے ممالک جاتے ہیں اور خوشی سے چین واپس آتے ہیں۔
چائنا انٹرنیٹ انفارمیشن سینٹر کے چیف ایڈیٹر وانگ شیاؤہوئی نے صدر شی جن پنگ کے قول 'صرف جوتے پہننے والا ہی بتا سکتا ہے کہ یہ فٹ ہے یا نہیں' کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ چین کا ترقیاتی ماڈل عوام پر مبنی ہے اور اس نے اس عرصے کے دوران نمایاں ثمرات حاصل کیے ہیں۔سی پیک پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے اس کے پہلے مرحلے کے دوران تعاون کو مستحکم کیاجس کے نتیجے میں توانائی کے بحران کا خاتمہ اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی ممکن ہوئی۔
چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز کے بیورو آف انٹرنیشنل کوآپریشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر یی ہیلن اس موقع پر کہا کہ آنے والے وقت میں دنیا یوکرین کے بحران سے پیدا ہونے والے عالمی سپلائی چین میں خلل کی وجہ سے بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کا مشاہدہ کرے گی۔ مزید برآں، نینسی پیلوسی کا تائیوان کا ممکنہ دورہ خطے کی صورتحال کو مزید کشیدہ کر دے گا۔ عالمی برادری کو ان مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس طرح کی کشیدگی سے کسی بھی فریق کو فائدہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے سی پیک میں تیسرے فریق کی شرکت پر بھی زور دیا۔
سلطان ایم حالی نے نپولین بوناپارٹ کا حوالہ دیا جس نے انہوں نے کہا تھا کہ 'چین کو سونے دو۔ کیونکہ جب وہ بیدار ہو گاتو دنیا کو ہلا کر رکھ دے گا۔ انہوں نے صدر شی جن پنگ کو اپنے پیشرووں کی طرف سے آنے والی خوشحالی کی رفتار کو برقرار رکھنے پر سراہتے ہوئے کہا کہ نئے دور (2012-2022) میں چین کی حکمرانی عوام کی خوشحالی کے لیے پالیسی کی مستقل مزاجی اور عزم کی بہترین مثال ہے۔ انہوں نے چین کے اندرون ملک کورونا وائرس سے نمٹنے اور ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کو طبی امداد کی صورت میں فراہم کی جانے والی امداد کی بھی تعریف کی۔
ڈاکٹر ژانگ جڈونگ، ریسرچ فیلو، ڈویژن ڈائریکٹر برائے بین الاقوامی تعاون، قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن نے صدر شی جن پنگ کے حوالے سے کہا کہ چین اور پاکستان سدا بہار تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت دار ہیں اور ایک دوسرے کے بنیادی مفادات سے متعلق مسائل پر مضبوطی سے ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور دوستی 70 سال کے بین الاقوامی اتار چڑھاؤ کے امتحان پر پورا اترے ہیں اور مزید مضبوط بھی ہوئے ہیں۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی، لاہور کے ڈین ڈاکٹر صفدر سہیل نے کہا کہ سی پیک پاکستان اور چین کے درمیان گہرے دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے تعاون کا روڈ میپ ثابت ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک ان تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور یہ دونوں فریقین کی اجتماعی کوششوں سے ہی ممکن ہو گا۔
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ ہم نے چین سے کمیونٹی لیول گورننس کی اہمیت سیکھی جس نے لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف معاشی ترقی غربت کو ختم نہیں کر سکتی جب تک کہ معاشی سرگرمی روزگار پیدا نہیں کرتی۔ مزید برآں انہوں نے پاکستان اور چین کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے میں خدمات کے شعبے کو شامل کرنے کی تجویز دی۔
ویبنار ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہا اور اس میں 50 سے زائد شرکاء نے شرکت کی۔ طلباء، اسکالرز اور میڈیا کے متنوع سامعین نے اس ویبینار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔